Chingari Part 2, Urdu gandi story, Urdu bold story, gandi story in urdu , urdu gandi kaganiya

urdu sexy stories 2023, urdu sexy story, urdu sexy stories, 18+ urdu stories, urdu hot stories, hot stories urdu, urdu sexy, urdu hot stories, bold


 چنگاری

غسل سے فارغ ہوئے تو بہت دیر ہو چُکی تھی۔ مجھے اب ڈر لگ رہا تھا کہ چچا کو کیا کہوں گا کہ اتنی دیر کہاں لگا دی، میں نے اپنے ڈر کا ذکر چچی سے بھی کیا اور کہا کہ چچا خادم اتنی دیر لگانے کا پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا؟ چچی کافی ذہین تھی فوراً کہانی تیار کر لی کہ اگر چچا پوچھے تو اسے کہہ دینا کہ چچی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور انہوں نے دوائی لینے بھیج دیا تھا اور کھانا بھی تیار نہیں تھا جس وجہ سے دیر ہو گئی، وجہ اور کہانی معقول تھی۔ کھانا لے کر دکان پر پہنچا تو گاہکوں کا کوئی اتنا رش نہیں تھا۔ چچا کے پوچھنے پر پہلے سے تیار کی ہوئی کہانی سُنا دی۔ چچا نے بھی اسے ہی سچ سمجھا اور کھانا لے کر کھانے لگے۔ میں آج ہونے والے اس واقعے سے سرشار تھا۔ خود میں عجیب سی تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اپنا آپ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ میں خود کو ایک لڑکے کے بجائے پختہ کار مرد کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔ جبکہ چچا خادم پر نظر جاتی تو خود سے شرم آتی کہ میں نے ان سے نمک حرامی کی ہے۔ چچی کا سراپا اور اس واقعے کے تمام پہلو کسی فلم کی طرح دماغ میں چل رہے تھے۔ باقی تمام وقت کام کے ساتھ یہی خیالات میرے دماغ پر حاوی رہے۔ اگلے دن کھانا لینے گیا تو چچی کافی کھلی کھلی اور خوش دکھائی دے رہی تھی۔ آج ان کا روپ پہلے سے زیادہ حسین لگ رہا تھا۔ میں نے کوئی زیادہ بات نہ کی بلکہ زیادہ دیر خاموش ہی رہا۔ مجھے چچا خادم کے ساتھ بد اعتمادی اور بد دیانتی پر پشیمانی بھی تھی شائید یہی وجہ تھی کہ میں چچی سے بات کرنے سے ہچکچا رہا تھا۔ جبکہ چچی مجھے بڑے پیار اور محبت سے مُسکراتے ہوئے دیکھے جا رہی تھی۔ میں کھانا لے کر نکلنے لگا تو چچی نے بنا کوئی بات کیئے مجھے بازوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور پھر اپنے دونوں بازوؤں کے حصار میں لے کر اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ چچی کے کے مموں کی گُداز نرمی میرے سینے میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی، میرے تن بدن کو دہکانے کیلئے چچی کا یہی عمل کافی تھا۔ "کیا بات ہے میرا راجہ آج اتنا افسردہ کیوں ہے" چچی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تو جواب میں صرف اتنا کہہ پایا کہ کوئی بات نہیں ۔ چچی نے میرے ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہوئے کہا " نبیل کل تم نے مجھے جو راحت دی میں اس کیلئے تمہاری شکرگذار ہوں۔ اور دیکھو تم کچھ بُرا مت سوچو تُم جوان ہو اور سمجھدار بھی۔ تُم نے میری ضرورت پوری کی اور میں تمہاری ضرورتوں کا خیال رکھوں گی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ یہ کہتے ہوئے چچی نے پانچ سو کا نوٹ میری جیب میں ڈال دیا۔ میں نے معنی خیز نظروں سے چچی کی طرف دیکھا تو چچی نے کہا " ہم نے بس ایک دوسرے کے بارے میں سوچنا ہے، اور کسی دوسری سوچ کو دماغ میں جگہ نہیں دینی۔ تُم سمجھ رہے ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں؟ چچی نے سوالیہ انداز سے بات کہی تو میں نے نہ سمجھتے ہوئے بھی ہاں جی کہہ دیا۔ میں جانتی ہوں تُم اتنے خاموش کیوں ہو چچی نے پھر سے بولنا شروع کیا تو میں صرف ان کے چہرے کی طرف دیکھنے پر ہی اکتفا کر رہا تھا۔ " نبیل تم اس بڈھے ( چچا خادم ) کیلئے زیادہ مت سوچو " مجھے لگا چچی واقعی میرے دل تک پہنچ گئی ہے۔ اور اسے معلوم ہو گیا ہے کہ میں چچا خادم سے بددیانتی پر شرمندہ ہوں ۔ چچی نے مجھے اس شرمساری سے نکالنے کیلئے کافی باتیں کیں۔ اور مجھے اس بات پر تقریباً قائل کر لیا کہ جو کچھ ہمارے درمیان ہوا وہ ہماری ضرورت تھی جس کو چچا خادم پورا نہیں کر سکتا تھا اس لیئے ہم نے اس سے بددیانتی نہیں کی، ہر انسان اپنے دفاع کیلئے دلیلیں بنا لیتا ہے اور اسی طرح ہم نے بھی اپنے اس عمل کیلئے کچھ دلیلیں بنا لیں تاکہ اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکیں اور اس گھناؤنے کھیل کو جاری رکھ سکیں۔ اس کے بعد ہمارا معمول ہو گیا تھا کہ میں جب بھی کھانا لینے جاتا ہم خوب مستی کرتے۔ چچی میرے پہنچنے سے پہلے ہی تیار ہوتی میرے جاتے ہی ہم سیکس کا مزا لیتے اتنے دنوں میں میں کئی بار چچی کی چوت مار چُکا تھا۔ لیکن پہلے دن کی طرح ہم زیادہ وقت نہیں لگاتے تھے۔ آدھا پونہ گھنٹا سیکس کرتے اور میں کھانا لے کر دکان پر چلا آتا۔ مجھے بھی عادت سی ہو گئی تھی میں انتظار کرتا کہ کب وقت آئے اور میں کھانا لینے کیلئے جاؤں ۔ ایک دن کھانا لینے گیا تو چچی نے کہا کہ نبیل ایسے مزا نہیں آ رہا کسی دن وقت نکالو تاکہ ہم پھر سے بھرپور سیکس کا مزا لے سکیں۔ میں کیا کہتا میں نے اپنی مجبوری بتا دی کہ میں زیادہ وقت کیسے نکال سکتا ہوں، میں اس معاملے میں مجبور ہوں تو چچی نے کہا کہ چلو پھر میں ہی کوئی ترکیب کرتی ہوں۔ اس دن بھی ہم نے سیکس کیا۔ دوسرے دن میں کھانا لینے گیا تو چچی کافی خوش نظر آ رہی تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ مجھے ایک ترکیب سوجھی ہے۔ اگر تم تین چار دن کیلئے دکان کی ذمہ داری سنبھال لو اور ہمارے گھر آکر رہ لو تو میں تمہارے چچا کو دوسرے شہر بھیج سکتی ہوں۔ میں نے پوچھا وہ کیسے۔ تو چچی بتانے لگی کہ چچا خادم کی بہن پچھلے کئی دنوں سے دوسرے شہر میں کافی بیمار ہے۔ لیکن چچا دکان اور گھر کی مجبوری کی وجہ سے اس کی تیمارداری کو نہیں جا سکا۔ اگر تُم دکان اور گھر میں رہنے کی حامی بھرو تو میں تمہارے چچا سے بات کروں۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ دکان کا سارا کام میں بخوبی جانتا تھا اور گھر میں رہنا بھی میرے لیئے دشوار نہیں تھا۔ میں نے چچی سے حامی بھر لی تو چچی نے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے چچا سے رات کو بات کروں گی لیکن وہ اگر کل تم سے پوچھے تو اسے ظاہر مت ہونے دینا کہ تم اس بات سے پہلے سے باخبر ہو، بلکہ ایسے ظاہر کرنا کہ یہ بات ابھی تمہارے سامنے کی جارہی ہے۔ آپ فکر نہ کریں میں ایسا ہی کروں گا۔ urdu sexy stories 2023, urdu sexy story, urdu sexy stories, 18+ urdu stories, urdu hot stories, hot stories urdu, urdu sexy, urdu hot stories, bold
دوسرے دن دکان پر چچا نے مجھے پاس بلا کر پوچھا کہ میں ان کی غیر حاضری میں دکان چلا سکوں گا تو میں نے چچا کو یقین دلایا کہ فکر کی بات نہیں کام کو ایمانداری سے سنبھالوں گا۔ چچا بس تسلی کیلئے ہی پوچھ رہے تھے ویسے وہ جانتے تھے کہ میں تمام کام سمجھتا ہوں اور کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ " نبیل پُتر دکان کی اتنی پریشانی نہیں ہے۔ اصل میں گھر میں بھی کسی مرد کا ہونا ضروری ہے، میں تین چار دن کے لیئے اگر کہیں جاؤں تو کیا تُم ہمارے گھر رہ لو گے؟" چچا نے گویا اپنی اصل پریشانی بیان کی، میں چچا کے چہرے کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا چچا دوبارہ بول پڑے ۔ " اگر تمہارے گھر والوں کو اعتراض نہ ہو تو میری غیر موجودگی میں تم رات ہمارے گھر ہی سو لینا۔" " چچا آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ میرے گھر والوں کو بھلا کیا اعتراض ہو گا۔ آپ حکم کرو بندہ ہر حکم کی تعمیل کیلئے حاضر ہے۔" میں نے چچا کو مطمئن کر دیا۔ اور چچا کے چہرے سے بھی لگا جیسے کوئی بوجھ ان کے سر سے اُٹھ گیا ہو۔ سب کچھ سمجھانے کے بعد چچا نے بتایا کہ وہ کل اپنی بہن کی تیمارداری کیلئے روانہ ہو جائیں گے اور جب تک وہ نہ آئیں میں ان کے گھر ہی رکوں گا۔ اس دن میں کھانا لینے گیا تو چچی کو خوشخبری سنائی اور بتایا کہ چچا سے میری کیا بات ہوئی ہے۔ چچی تو خوشی سے پاگل ہو گئی اور اسی خوشی کے مارے اس نے مجھے بے تحاشہ چوم لیا۔ اس بوس و کنار اور چچی کے جسم کی گرمی نے میرے تن بدن میں آگ دہکا دی لیکن میں نے اور چچی نے فیصلہ کیا کہ اس آگ کو کل تک بڑھکنے دیتے ہیں اور کل جب چچا چلے جائیں گے تو اس آگ کو خوب ٹھنڈا کریں گے۔ شام کو دکان بند کرنے کے بعد چچا نے دکان کی چابیاں میرے حوالے کیں اور بتایا کہ وہ تین دن تک اپنی بہن کے پاس رہیں گے اور چوتھے دن واپس آئیں گے۔ اور مجھے ہدایت کی کہ کل اپنے گھر والوں کو بتا آؤں کہ میں اگلی تین راتیں چچا کے ہاں ہی ٹھہروں گا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ گھر جاتے ہوئے آنے والے چند دنوں کے خیالات میرے دماغ میں گردش کرتے رہے۔ انہیں خواب و خیال کی دنیا میں مگن رات کو اچھی طرح سے سو بھی نہ سکا۔ صُبح نہا دھو کر تیار ہوا اور دو جوڑے کپڑوں کے بیگ میں ڈالے۔ تمام دن دکان پر رہا۔ دوپہر کو کھانا بھی قریب کے ایک ہوٹل سے منگوا لیا۔ شام دکان بند کرکے چچا کے گھر پہنچا تو چچی ڈرائنگ روم میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جبکہ اُن کی دونوں بیٹیاں فائزہ اور مائرہ فرش پر بیٹھے سکول کا کام کرنے میں مصروف تھیں۔ اور لڑکا اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ چچی کافی خوش نظر آ رہی تھی۔ میں نے پہلے تو دکان کا سارا حساب کتاب بتایا اور سبھی رقم چچی کو دی، پھر چچی نے میرے لیئے کھانا گرم کیا اور ٹیبل پر رکھا۔ میں کھانا کھا چُکا تو چچی کے قریب دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا۔ چچی مجھے کہہ رہی تھی کہ اپنا ہی گھر سمجھوں ۔ فائزہ چچی کی بڑی بیٹی بار بار اپنی کتابوں سے نظر اُٹھا کر دیکھ رہی تھی۔ اگرچہ تمام بچے مجھے جانتے تھے اور مجھ سے کافی مانوس بھی تھے لیکن آج پہلی بار میں یوں اس وقت اُن کے گھر آیا تھا۔ اسی لیئے شائید انہیں کچھ حیرانی تھی۔ فائزہ چودہ برس سے کچھ ماہ اوپر کی تھی اور کافی سمجھدار بھی۔ اسی لیئے اسے پتہ تھا کہ اُن کا باپ گھر نہیں ہے اور میں ان کے گھر رہوں گا جبتک کہ ان کا باپ واپس نہیں آ جاتا۔ اسی لیئے وہ نارمل ہی دکھائی دے رہی تھی جبکہ مائرہ نے ماں سے کافی سوال کیئے کہ میں آج ان کے گھر کیوں آیا ہوں اور یہاں کیوں رہوں گا۔ چچی نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دے دیئے تھے۔ اسی لیئے وہ بھی اب مطمئن دکھائی دے رہی تھی۔ فہد چچی کا بیٹا کھلونے چھوڑ کر میری گود میں آ گیا اور مجھ سے کھیلنے لگا۔ اور کھیلتے کھیلتے میری گود میں ہی سو گیا۔ چچی اسے میری گود میں سے لینے کیلئے میرے قریب آکے جھُکیں تو ان کے ممے میرے منہ سے ٹکرا گئے۔ میری نظر غیر ارادی طور پر فائزہ کی طرف اُٹھ گئی کہ کہیں اس نے اپنی ماں کا میرے اتنے قریب جھکنا دیکھا تو نہیں۔ لیکن وہ اپنے کام میں مصروف تھی۔ چچی نے بڑی اچھی پرفیوم لگا رکھی تھی۔ جس کی خوشبو نے مجھے معطر کر دیا۔ چچی فہد کو اُٹھاتے ہوئے بولیں، "نبیل تم بھی آؤ تمہیں تمہارے سونے کی جگہ دکھا دوں۔" میں خاموشی سے اُٹھا اور چچی کے پیچھے چل پڑا، چچی نے پہلے تو فہد کو اپنے بیڈ روم میں بیڈ پر لٹایا، پھر ایک کمرہ چھوڑ کے اگلے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا، " یہ تُمہارا کمرہ ہے۔ ساتھ میں فائزہ اور مائرہ کا اور اس سے آگے میرا ہے۔ باتھ روم کا تم کو پتہ ہی ہے کہ کہاں ہے۔" " جبتک تم یہاں ہو یہ تُمہارا ہے کوئی تمہیں ڈسٹرب نہیں کرے گا۔" یہ بات کہتے ہوئے چچی نے مُسکرا کر ایک آنکھ دبائی اور ہولے سے کہا " سوائے میرے "۔ میں بھی انہیں مسکراہٹ سے ہی جواب دے رہا تھا۔ اگرچہ ہم ایک دوسرے سے بہت پہلے سے ہی کھل چکے تھے اور ہم دونوں ایکدوسرے کے انگ انگ سے آشنا تھے لیکن پھر بھی بچوں کے سامنے ان تمام تکلفات کو مدنظر رکھنا ضروری تھا تاکہ وہ اسے عام روٹین کے مطابق ہی سمجھیں۔ کمرہ اور بستر دیکھ چُکنے کے بعد ہم واپس ڈرائنگ روم میں آگئے۔ جب تک بچے جاگ رہے تھے۔ ہم کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ دونوں جانب امنگیں تڑپ رہی تھیں۔ لیکن ہمیں برحال ان مچلتی امنگوں کو ابھی قابو میں رکھنا تھا۔ اور ہم دونوں نے ہی کمال ضبط سے ان پر قابو پا رکھا تھا۔ چچی اور میں کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ فائزہ اور مائرہ سکول کا کام ختم کر کے اب ٹی وی دیکھنے میں محو تھیں۔ جب رات کے نو بجے تو چچی نے فائزہ اور مائرہ کو سونے کا کہہ کر ٹی وی آف کر دیا۔ میں بھی سونے کا کہہ کر اُٹھ گیا۔ سونا کسے تھا بس لڑکیوں کو مطمئن کرنا تھا کہ سونے کا وقت ہو گیا ہے۔ میں بستر پر آکے لیٹ گیا اور چچی کے ساتھ ہونے والے سیکس کے تصورات میں کھو گیا۔ میں خود کو خوش قسمت تصور کر رہا تھا کہ چچی جیسی خوبصورت عورت مجھ پر فدا تھی اور میری جنسی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ گاہے بگاہے مالی ضرورت کا بھی خیال رکھ رہی تھی۔ میں انہی خیالوں میں غرق تھا کہ کمرے کا دروازہ کھُلا اور مجھے چچی کا ہیولا نظر آیا۔ " نبیل سو گئے ہو کیا؟" چچی میرے بیڈ کے قریب آتے ہوئے سرگوشی سے بولیں۔ " ایسے میں کوئی سو سکتا ہے کیا؟" میں نے چچی کے انداز میں ہی سرگوشی کرتے ہوئے سوال کے انداز میں جواب دیا۔ "اچھا آؤ میرے ساتھ میرے کمرے میں چلتے ہیں۔" چچی مجھے اُٹھا کر اپنے کمرے میں اپنے ساتھ لے آئی۔ میں تو بس چچی کا غلام تھا۔ وہ جیسے جیسے کہہ رہی تھیں میں ویسے ہی ان کا ہر حکم بجا لا رہا تھا۔ چچی ایک جالی دار نائٹ ڈریس پہنے ہوئے تھیں۔ جبکہ کھلے بالوں کے ساتھ کمرے میں نیلی روشنی والے چھوٹے بلب کی روشنی میں چچی کا حُسن قیامت خیز تھا۔ میرا لنڈ تو ان کے خیال سے ہی اکڑ جاتا تھا۔ ان کا یہ روپ دیکھ کر تو کافی بیتاب ہو رہا تھا۔ چچی نے میرے پیچھے کمرے کا دروازہ بند کیا اور پیچھے سے ہی مجھے اپنے بازؤوں کے حصار میں لے لیا۔ وہ مجھ سے ایسے چپک گئیں جیسے چبائی ہوئی چیونگم چپک جاتی ہے۔ ان کی گرم سانسیں مجھے اپنی گردن پر محسوس ہو رہی تھیں۔ چچی کا دایاں ہاتھ میرے بازو کے نیچے سے ہوتا ہوا میرے سینے سے کھیلنے لگا جبکہ ان کا بایاں ہاتھ میرے ناف کے قریب پیٹ کو دبوچے ہوئے تھا۔ " تمہیں نہیں پتہ نبیل یہ پیاس کیسی ہوتی ہے۔" "نبیل تم اس پیاس کی تشنگی کو نہیں جان سکتے۔" چچی شائید کسی رومانوی ناول کا کوئی انتہائی رومانی حصہ سُنا رہی تھی۔ مجھے اُن کے لفظوں سے غرض نہ تھی مجھے اپنی حالت کا خوب اندازہ تھا کہ میرا لنڈ کسی لوہے کے راڈ کی طرح اکڑا ہوا تھا جبکہ میرا جسم آگ کا ایندھن بن رہا تھا۔ اس وقت میں بس یہ چاہ رہا تھا کہ چچی کو الٹا کروں اور لوہے کے اس سخت راڈ کو چچی کی چوت کی بھٹی میں ڈال کر پگلا دوں۔ میں نے چچی کا ہاتھ پکڑ کر چچی کو اپنے سامنے کھینچ لیا۔ ہم اب ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ چچی نے میری قمیض کو پکڑ کر میرے سر سے نکال دیا۔ چچی دیوانگی کے عالم میں تھی وہ اپنا چہرہ اور منہ میرے سینے سے رگڑ رہی تھی۔ اور جگہ جگہ بوسے دیئے جارہی تھیں۔ میرا ضبط ختم ہونے کو تھا۔ میں نے چچی کو بالوں سے پکڑ کر نیچے کی طرف ہلکا سا جھٹکا دیا تو چچی کا منہ اوپر کو اُٹھ آیا۔ جیسے ہی چچی کا منہ میرے منہ کے برابر ہوا میں نے اپنے ہونٹ چچی کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔ ہونٹوں کے رس کا بھی اپنا ہی مزہ ہے جتنا چوستے رہو جی نہیں بھرتا۔ چچی کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے میں نے دونوں ہاتھوں سے چچی کی نائٹ ڈریس کو اوپر کھینچ لیا۔ چچی برا اور پینٹی سے بلکل آزاد تھی۔ اسی لیئے ڈریس اترتے ہی وہ مکمل برہنہ ہو گئیں۔ چچی نے بھی جب مجھے ان کا ڈریس اتارتے دیکھا تو انہوں نے بھی میری شلوار کا ناڑا کھول دیا۔ ہم دونوں مادر زاد ننگے ایک دوسرے کو چاٹنے لگے۔ چچی اپنے ایک ہاتھ سے میرے لنڈ سے بھی کھیل رہی تھی۔ میرے ہاتھ چچی کی گانڈ پر ٹکتے تو کبھی ان کے گول مٹول مموں کو دباتے۔ میں چچی کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر باری باری چوستا تو چچی کی سسکاریاں نکل جاتی ۔ اور وہ زیادہ جوش میں دکھائی دینے لگتی۔ چچی مجھے چاٹتے ہوئے نیچے میرے لنڈ تک چلی گئی۔ ایک دو بوسے دینے کے بعد چچی نے میرے لنڈ کے سرے کو اپنی زبان کی نوک لگائی تو ایک سرد لہر ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی میرے پورے جسم میں سرایت کر گئی۔ چچی پہلے تو لنڈ پر زبان پھیرتی رہی پھر آہستہ آہستہ لنڈ کو اپنے ہونٹوں کے حلقوں میں لینا شروع کیا تو مجھ پر گویا جنون طاری ہونے لگا۔ چچی میرے لنڈ کو چُوس رہی تھی اور مجھے لگ رہا تھا جیسے وہ لنڈ کے راستے میری روح کو کھینچ رہی ہے۔ چچی کے یوں میرے لنڈ کو چوسنے سے میرا ضبط جواب دے گیا میں نے وہیں چچی کے منہ کو ہی زور زور سے چودنا شروع کر دیا۔ چچی نے لنڈ کو اپنے تھوک سے خوب گیلا کیا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ چچی مجھے منہ میں چودنے سے روک دے گی لیکن اس نے مجھے بلکل بھی نہیں روکا بلکہ ہونٹوں کو میرے لنڈ کے گرد اچھی طرح کس لیا جس سے میرا لنڈ اندر باہر ہوتے ہوئے چچی کے ہونٹوں سے رگڑ کھا کر اندر باہر ہو رہا تھا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے چچی کے سر کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا اور کافی تیزی سے چچی کے منہ میں چود رہا تھا۔ میرا لنڈ چچی کے گلے کے اندر تک پہنچ رہا تھا۔ اور جب بھی میں لنڈ کو چچی کے گلے تک لے کر جاتا چچی کی آنکھیں اُبل پڑتیں۔ ان کا منہ ٹماٹر کی طرح سرخ ہو گیا تھا۔ آنکھوں سے پانی جاری تھا جبکہ گلے سے غرپ غرپ کی آوازیں برآمد ہوتیں۔ میں چچی کے منہ کو چودتے ہوئے لنڈ کو بڑی تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا۔ اور ہر بار میری کوشش ہوتی کہ لنڈ کو زیادہ سے زیادہ چچی کے منہ کے اندر تک لے جاؤں ۔ چچی بھی جیسے یہی چاہتی تھی ۔ میں جب بھی لنڈ کو چچی کی منہ کے اندر دھکیلتا چچی دونوں ہاتھوں سے میری گانڈ پر اپنے منہ کی طرف دباؤ بڑھا دیتی۔ لنڈ کی تمام رگیں تنی ہوئی تھیں اور میں بہت زیادہ جوش میں تھا۔ پتہ ہی نہیں چلا اور میں نے چھوٹ کا فوارہ چچی کے منہ کے اندر ہی چھوڑ دیا۔ چچی کا منہ میں نے چھوٹ سے بھر دیا۔ لنڈ کو باہر کھینچا جو چھوٹ سے لتھڑا ہوا تھا۔ چچی کسی بے صبرے بچے کی طرح چاٹ چاٹ کر صاف کر رہی تھی جیسے چھوٹ نہ ہو بلکہ خالص شہد ہو جو ان کو کسی مرض میں شفا کیلئے انتہائی ضروری ہو۔ میں چچی کی آنکھوں میں عجیب دیوانگی دیکھ رہا تھا۔ ان کے گال ہونٹ اور ٹھوڑی میرے چھوٹ سے لتھڑے ہوئے تھے اور وہ زبان گھما گھما کر انہیں صاف کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میرے لنڈ کو وہ ایسے چُوس رہی تھی جیسے آخری قطرہ تک کھینچ لینا چاہتی ہو۔ urdu sexy stories 2023, urdu sexy story, urdu sexy stories, 18+ urdu stories, urdu hot stories, hot stories urdu, urdu sexy, urdu hot stories, bold چچی نے میری تقریباً تمام منی چاٹ لی تھی۔ وہ مکمل طور پر پاگل پن کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ لنڈ سُکڑ چُکا تھا اب شائید چچی مجھ سے چاٹنے کا بدلہ لینا چاہتی تھی اسی لیئے چچی بیڈ پر لیٹی تو اُس نے مجھے بھی ساتھ کھینچ لیا۔ ہم دونوں بیڈ پر چپکے ہوئے تھے۔ چچی نے مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا اور مجھے سر سے پکڑ کر میرے منہ کو اپنے مموں پر ٹکا دیا۔ میں باری باری دونوں کو چُوس رہا تھا۔ ہم کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔ بس اشاروں کی زبان تھی جس پر ہم بخوبی عمل کر رہے تھے۔ جیسے چچی جدھر جدھر میرے سر کو گھما رہی تھی میں وہاں وہاں چوم رہا تھا۔ چچی نے میرا سر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ رکھا اور گانڈ ہلا ہلا کر چوت کو میرے منہ سے رگڑنے لگی۔ میں چچی کو دیکھ چُکا تھا کہ کس طرح سے انہوں نے میرے لنڈ کو چوسا تھا۔ میں اس جوش کا بدلہ ان کی چوت کو چاٹ کر دینا چاہتا تھا۔ میں نے زبان کی نوک سے چوت کے دونوں ہونٹ الگ کئے۔ نیچے سے اوپر تک چوت کی پرتوں کو الگ کرنے کے بعد چوڑی زبان سے کسی کُتے کی طرح چاٹنے لگا۔ چوت کے نچلے حصے سے زبان کو اوپری حصے تک لے کے آتا تو چچی کی سسکاریاں نکل جاتیں۔ آہہہہہہہہہ ہہہہہہہہہمممم اووووووووں آآآآآہہہہہہہ جیسی آوازیں میری زبان کے چچی کی چوت پر رگڑ کھانے پر چچی کے منہ سے نکل رہی تھی ۔ اور میں جس رفتار سے زبان گھماتا چچی کی آوازیں بھی اسی رفتار سے ابھرتی۔ چچی کی چوت گیلی ہو چُکی تھی، لیکن میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھا۔ میں نے اب تیزی سے زبان کو چوت کے اندر باہر کر رہا تھا۔ جیسے زبان سے چچی کی چوت مار رہا تھا۔ چچی کی دیوانگی عروج پر تھی اور ان کے منہ سے نکلنے والی آوازیں میرے جوش کو بڑھا رہی تھی۔ میں کبھی انگلیوں سے چوت پر مساج کرتا اور کبھی زبان سے چاٹنے لگتا۔ ہم دونوں کے جسم انگارے بنے ہوئے تھے۔ میرا سُکڑا ہوا لنڈ پھر سختی پکڑ چُکا تھا۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ چچی کی چوت میں ڈال دوں لیکن میں چچی کے اشارے کا انتظار کر رہا تھا۔ چچی شائید ابھی چوت چٹوانے کا مزہ ہی لینا چاہتی تھی۔ اسی لیئے وہ اپنی گانڈ گھما گھما کر میرے منہ پر رگڑتی اور میں زبان سے ان کی چوت کو اچھی طرح چاٹ رہا تھا۔ ان کی لیس دار نمکین چوت کو پہلی دفع چاٹنے پر مجھے بہت کراہت ہوئی تھی لیکن اب مجھے بھی کافی مزہ دیتی ہے۔ اور میں بھی اسے چاٹنا پسند کرنے لگا ہوں۔ اور چوت چاٹتے ہوئے چچی کی آہہہہہ ہہہہہمممم اووووووں کی آوازیں مجھے بہت مزہ دیتی تھیں۔ چچی کی تیز ہوتی سسکاریاں کسی طوفان کا پتہ دے رہی تھی۔ میں پوری لگن سے اُن کی چوت کو چاٹ رہا تھا اچانک مجھے لگا چچی کی چوت سے جیسے پانی اُبل پڑا ہو، چچی کے جوش میں بھی قدرے سکون آ گیا تھا۔ میں نے چچی کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں موندے ہوئے کھلے منہ سے تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔ میں سیدھا ہو کر بیٹھا تو چچی نے ہاتھ بڑھا کر مجھے بازو سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچ لیا۔ میرے ہونٹوں کو چومتے ہوئے انتہائی مخمور آواز میں دھیرے سے کہا "نبیل رُک کیوں گئے، میری چوت تمہاری جاگیر ہے اسے آج اتنا چودو کہ اس کی ساری پیاس بجھ جائے۔ نبیل میرے راجہ میری چوت لوڑے کی پیاسی ہے اپنے لوڑے سے ایسا سیراب کرو کہ اس کی پیاس باقی نہ رہے۔" ہم ایک دوسرے کو چوم رہے تھے۔ چچی نے میرے لنڈ کو ایک بار پھر ہاتھوں سے رگڑ رگڑ کر اکڑا دیا تھا۔ چچی بیڈ پر سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ میں اس کی ٹانگوں کے درمیان آ کر بیٹھ گیا۔ چچی اپنی چوت کو ٹشو پیپر سے خشک کر چُکی تھی۔ میں نے چچی کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور دونوں ہاتھ چچی کی گانڈ کے نیچے لے جا کر انہیں اوپر اٹھایا کہ ان کی چوت میرے لنڈ کے مقابل آ جائے۔ چچی نے مجھے ایسے کرتا دیکھا تو ایک تکیہ گانڈ کے نیچے لے لیا۔ جس سے ان کی چوت اوپر اُٹھ گئی۔ ان کا پیٹ نیچے جبکہ چوت اوپر میرے لنڈ کے بلکل سامنے تھی۔ میں نے گھٹنوں کے بل ہو کر لنڈ ہاتھ میں لیا اور اس کا سر چچی کی چوت کے اوپر رگڑا تو چچی نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ مجھے اُن کا یوں ٹھنڈی سانسیں بھرنا بہت اچھا لگا۔ میں نے کچھ دیر ایسے ہی لنڈ کو چچی کی چوت پر رگڑا جس سے چچی کی سسکاریاں نکل رہی تھیں۔ اسسسس آخخخخخ عممممم اووونہہہہ کی آوازی بدستور چچی کہ منہ سے نکل رہی تھیں۔ میں پوری طرح ان آوازوں سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔ چچی کا صبر آخر جواب دے گیا۔ " نبیل اب اندر ڈال بھی دو۔" چچی کے کانپتے ہونٹوں سے آواز نکلی " کیوں مجھ پیاسی کو تڑپا رہے ہو۔" میں نے لنڈ کا سر جو کہ چچی کی چوت پر رگڑنے سے چکنا ہو چُکا تھا چچی کی چوت کے سوراخ کے اوپر رکھا اور آہستہ سے دھکا دیا تو وہ چوت کے اندر گھستا چلا گیا۔ چچی نے لمبی سانس کھینچی وہ لُطف و سرور کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں۔ چچی کی چوت اندر سے بہت گرم تھی مجھے لگا میں نے لنڈ کو جیسے آگ میں ڈال دیا ہو۔ جب لنڈ پوری طرح چوت میں چلا گیا تو میں نے اُسی طرح اسے دھیرے دھیرے باہر کھینچا اور پھر ایک تیز دھکے سے دوبارہ چچی کی چوت کے اندر غرق کر دیا۔ یہی عمل میں نے دہرانا شروع کیا تو چچی کی سسکیاں تیز سے تیزتر ہونے لگیں۔ اور چچی کا یوں سسکنا میرا جوش بڑھانے لگا۔ جس سے میری دھکے لگانے کی رفتار بڑھنے لگی۔ میں جوش میں تھا اور کسی مشین کی طرح رفتار پکڑ چُکا تھا۔ چچی کی سسکیاں میری رفتار کا ساتھ دے رہی تھیں۔ میری خود کی سانسیں بھی بےترتیب اور تیز تیز چل رہی تھیں۔ چچی کی چوت گیلی ہونے کی وجہ سے لنڈ آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا۔ جب لنڈ پوری رفتار سے اندر باہر ہونے لگا تو چوت کا گیلا پن بھی آہستہ آہستہ خشک ہونے لگا اور چچی میرے ہر دھکے پر آہہہہہہہہہ ہہہہممم اووووووں آاااںںںں کی آوازیں بھی تیزی سے نکال رہی تھی۔ چچی مجھے مزید تیش دینے کیلئے مجھے رفتار کو مزید تیز کرنے کا بھی کہہ رہی تھی۔ چچی کی آواز حقیقت میں مجھ پر جادو سا کر دیتی۔ میرا لنڈ اور چچی کی چوت سوکھ چکے تھے اور لنڈ چوت میں گھسانے کے لیئے اب تھوڑا زور بھی لگانا پڑ رہا تھا۔ اور لنڈ چوت کے اندر رگڑ کھا کر جا رہا تھا۔ مجھے چوت کے اندر لنڈ جکڑا ہوا لگتا۔ لیکن اس میں بہت مزہ آ رہا تھا۔ چچی کی آہہہہہہہہ اووووووں میں بھی تکلیف اور درد کا احساس ابھر رہا تھا۔ لیکن وہ جنون کی کیفیت میں دکھائی دے رہی تھیں۔ اور مجھے ایسی حالت میں بھی پکار پکار کر کہہ رہی تھی "نبیل چودو مجھے ، زور سے چودو، تیز تیز چودو، ہاں میرے شہزادے تیز کرو اور تیز ، پورا اندر کرو،" اور میں گویا کوئی مشین بنا ہوا تھا۔ میں بہت تیزی سے دھکے لگا رہا تھا، میرا لنڈ گوشت کا لگ ہی نہیں رہا تھا۔ لوہے کی طرح سخت تھا۔ چچی کی سسکیوں میں اب درد کے آثار بھی شامل تھے۔ میرے لنڈ کے اندر باہر کا سفر جاری تھا اور چچی کے چہرے سے تکلیف عیاں تھی۔ میں جب لنڈ کو چوت کے اندر دھکا دیتا تو چچی دانتوں کو بھینچ لیتی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں جبکہ منہ سے بدستور آہہہہہ آہہہہہہہہہ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اچانک چچی نے مجھے چودنے سے روکا اور اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن جب میرے لنڈ کو منہ میں لیا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ اسے تھوک سے گیلا کرنا چاہ رہی ہے۔ جب لنڈ کو اچھی طرح گیلا کر لیا تو کچھ تھوک انگلیوں پر ڈال کر چوت پر مل دیا۔ چچی نے اب شائید پوزیشن بدلنے کا بھی ارادہ کر لیا تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل ہو گئیں۔ ان کی گانڈ اوپر اُٹھی ہوئی جبکہ دونوں کندھے بیڈ پر ٹکے ہوئے تھے۔ وہ چوپائے کی طرح لگ رہی تھی۔ ان کی چوت میرے سامنے تھی جبکہ میں اب فرش پر کھڑا تھا۔ اس پوزیشن پر میرے لیئے چچی کو چودنا نسبتاً آسان تھا۔ کیونکہ میں اپنے پاؤں پر کھڑے رہتے ہوئے زیادہ زور سے اور آسانی کے ساتھ لنڈ کو چوت کے اندر دھکے لگا سکتا تھا۔ میں نے لنڈ کو ایک بار پھر تھوک سے اچھی طرح گیلا کیا اور چچی کی چوت پر رکھ کر چوت کے اندر دھکیل دیا۔ لنڈ چچی کی چوت کی خُشک دیواروں کو جیسے چیرتا ہوا اندر چلا گیا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ چچی کی گول مٹول گانڈ پر جما دیئے اور پھر سے مشین کی طرح دھکے لگانے لگا۔ چچی اپنی سیکسی آوازوں سے میرے جوش کو مسلسل بڑھا رہی تھی۔ اس پوزیشن پر میں جب بھی لنڈ کو چوت کے اندر دھکیلتا مجھے لگتا جیسے یہ چچی کے پیٹ سے باہر آئے گا۔ کچھ ہی دیر بعد لگا جیسے میرا لنڈ پھٹ جائے گا لیکن میں نے اسے دھکے دینا روکا نہیں، چچی کی چوت ایک بار پھر گیلی ہوگئی تھی اور لنڈ کے تیزی سے اندر باہر ہونے پر آوازیں دے رہی تھی۔ مجھے بھی محسوس ہورہا تھا کہ میرا لنڈ ابھی چھوٹ جائے گا۔ میں اسی رفتار سے چچی کو چود رہا تھا اور پھر آخر میرے لنڈ سے بھی فوارہ اُبل پڑا، لنڈ کو چچی کی چوت میں ڈالے ہوئے میں چچی کے اوپر ہی لیٹ گیا اور دونوں ہاتھ نیچے لے جا کر چچی کے نرم گُداز مموں کو پکڑ لیا۔ ہم دونوں جیسے پسینے سے نہائے ہوئے تھے urdu sexy stories 2023, urdu sexy story, urdu sexy stories, 18+ urdu stories, urdu hot stories, hot stories urdu, urdu sexy, urdu hot stories, bold

Comments